وہ مجاہد جو دو جنگوں میں صرف اس لئے شہید ہوئے کہ مملکت خدا داد قائم رہے ‘ ہاں میں نے ان شہیدوں کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا ہے ۔ وہ مناظر آج بھی میرے سامنے ہیں جب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرنے والی تھی ‘ تو ان کے لبوں پر کلمہ اور اللہ کے بعد پاکستان کا نام تھا ۔ میجر ظہور شہید کا نام آپ نے شاید نہیں سنا ۔ بہت کم لوگ اس گمنام شہید کو جانتے ہیں ۔ اس کی بٹالین والے ‘ اس کی بیوہ ‘ دو بیٹے اور میرا گھرانہ اس سے واقف ہے ۔
یہ 52 ۔ 1953 ء کی بات ہے اور سیالکوٹ چھائونی کا ذکر ۔
جن حضرات نے سیالکوٹ چھائونی دیکھی ہے وہ اسپتال روڈ کو ضرور جانتے ہوں گے ۔ اسپتال روڈ کے 54 نمبر بنگلے میں میری رجمنٹ کے افسر اور 55 نمبر بنگلے میں شہور کی پلٹن کے افسر رہتے تھے ۔ سارا دن جنگی مشقوں اور جسمانی مشقت میں گزرجاتا ۔ شام ہوتے ہی نہاد ھوکر اپنی اپنی سائیکل پکڑتے اور چھائونی کے بے مقصد چکر لگایا کرتے ۔ اس دوران ظہور سے میری ملاقات ہوئی اور پھر یارانہ یہ پاکستانی فوج کی تربیت اور اُٹھان کا زمانہ تھا ۔ ہم لوگوں سے سخت ترین جسمانی اور دماغی مشقت لی جاتی ۔اللہ اللہ ‘ کیا دن تھے ‘ کیسا فخر تھا ‘ کیسی سر خوشی کا عالم تھا ‘ ایسا محسوس ہوتا جیسے ہم لوگ پوری کائنات فتح کر لیں گے ۔ ہمارے سامنے کوئی رکاوٹ ‘ کوئی مشکل ‘ کوئی دشواری نہ تھی ۔ ہم کسی چیز کو خاطر میں لانا جانتے ہی نہ تھے ۔ پاک فوج کا فرد ہونے کے نشے میں افسر اور جوان سب سر شار رہتے اور یہی تڑپ اور یہی جوش ہمیں 65 ء کی جنگ میں لے گیا اور دنیا نے وہ کار نامے دیکھے جن سے پاکستانی فوج کا نام چار دانگ عالم مشہور ہو گیا ۔مارچنگ آرڈر:بھارت نے اعوان شریف پر گولا باری کی اور 65 ء کی جنگ کے بیج بو دیئے ۔ اسی دوران ظہور اپنی پلٹن میں واپس آ گیا اور اس کی پلٹن کو لاہور کے محاذ پر بھیج دیا گیا ۔ جاتے وقت ظہور اپنے بیوی بچوں سے ملنے گیا ۔ وہ اپنی پوری جنگی وردی میں ملبوس تھا۔ سر پر فولادی ٹوپی اور پورا فیلڈ سروس مارچنگ آرڈر پہنے ہوئے ۔ دھوپ کی تمازت سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔ ظہور کے دونوں بیٹے ماشا ء اللہ آٹھ اور دس برس کے تھے ۔ باپ نے دونوں بیٹوں کو گلے سے لگایا ۔ چھوٹا بیٹا کامران ضد کر رہا تھا وہ بھی اپنے ابا کے ساتھ دشمنوں سے لڑنے جائے گا ۔ اسے بڑی مشکل سے روکا گیا ۔ ظہور مجھے بھی اللہ حافظ کہنے آیا ۔ میں ڈسکہ اور چونڈہ جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر تک عمر رفتہ کو آواز دیتے رہے اور پھر گلے مل کر رخصت ہوئے ۔جنگ ستمبر جاری تھی اور ظہور اور اس کی کمپنی کو لڑتے ہوئے چار دن اور چار راتیں ہو چکی تھیں ۔ کہنے کو چار دن اور چار راتیں معمولی سی بات ہے ‘ لیکن وہ لوگ جو میدان جنگ میں ان حالات سے گزرے ہیں ‘ صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں ۔ صرف بہت اعلیٰ فوجی تربیت اور اسلام کی روح‘ خدا اور رسول ﷺ کی محبت ہی دل و دماغ قابو میں رکھ سکتی ہیں ۔10 ستمبر کی صبح پاکستان پر بہت سخت آئی تھی ۔ بھارت نے اپنی پوری بکتر بند فوج چونڈہ اور لاہور کے محاذ پر جھونک دی ۔ بھارتی سپاہی تازہ دم تھے کیونکہ وہ پلٹنیں جنہوں نے 6 ستمبر کو حملے کا آغاز کیا تھا انہیں آرام کے لئے پیچھے بھیج دیا گیا تھا ۔ مگر پاکستان کے پاس کوئی تازہ دم فوج نہیں تھی ۔ اللہ کے ان سپاہیوں نے تھکے ماندے ہونے کے با وجود اس حملے کا بڑی بے جگری سے جواب دیا اور ایک انچ زمین بھی دشمن کے حوالے نہ کی ۔
ظہورکو اپنے دفاعی مورچوں سے چار سو گز دور ایک ٹیکری پر قبضہ کرنا تھا جہاں سے دشمن اپنی مشین گنوں سے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد زبردست آگ برسا رہا تھا ۔ حملہ صبح صادق کے وقت کرنا تھا ۔ جان میاں نے اسے چائے دی ظہور نے چائے پی کر وضو کیا اور صبح کی نماز پڑھی۔ پھر دھلی ہوئی جنگی وردی پہنی ‘ اپنا پستول پائوچ میں لگایا اور بسم اللہ پڑھ کر اپنی خندق سے باہر آ گیا ۔ صوبے دار صاحب نے
حملے کے لئے کمپنی تیار کر لی تھی ۔ جیسے ہی تھوڑا اُجالا ہوا ظہور نے مارچ کا حکم دے دیا ۔ یہ ظہور کے وہی ساتھی تھے ‘ وہی کمپنی تھی جس کی تربیت اس نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے کی تھی ۔اسٹارٹ لائن عبور کر کے ظہور نے زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا ۔ یہ حملے کا حکم تھا ۔ پوری کمپنی برق رفتاری سے دشمن کی طرف روانہ ہو گئی ۔ دشمن ایک دم چونک اُٹھا اور اس نے اپنے تمام ہتھیاروں سے فائر کھول دیا ۔ ظہور اس کمپنی میں پہلا آدمی تھا جسے مشین گن کا پورا برسٹ لگا ۔ اس کے قدم تھوڑی دیر کو لڑ کھڑائے ‘ لیکن پھر کسی نے قریب سے نعرۂ تکبیر اور علیؓ کا نعرہ بلند کیا اور جیسے کسی نے ظہور میں بجلی بھر دی ۔ جان میاں جو اس حملے میں ظہور کے ساتھ تھا ‘ اس نے ظہور کو روکنے کی کوشش کی ‘ مگر وہ تو جیسے اس دنیا کا باشندہ نہ رہا تھا ۔ وہ جذبے اور جوش کی اس منزل پر پہنچ چکا تھا جہاں واقعات معجزہ بن کر رونما ہوتے ہیں ۔ظہور اسی رفتار سے دوڑتا رہا۔ اپنے افسر کو زخمی حالت میں اور اس کی چھاتی سے خون کی ندیاں بہتی دیکھ کر کمپنی کا ہر جوان دیوانہ ہو گیا اور پوری کمپنی اس تیزی سے اپنے نشانے پر جھپٹی کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا ۔ اس تین سو گز کو طے کرنے میں ظہور کی کمپنی جس آگ اور خون کے دریا سے ہو کر گزری وہ پاکستانی فوج کی تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔ ظہور سب سے پہلے اس ٹیکری پر چڑھ گیا اور اپنے پستول سے دو دشمنوں کو جہنم واصل کیا ۔ اس کی پوری کمپنی اس کے جلو میں تھی ۔ دست بدست لڑائی ہوئی ‘ حالانکہ دشمن کی پوری بٹالین اس تھکی ماندی کمپنی کا مقابلہ کر رہی تھی ‘ مگر اسلام کے ان غازیوں کے آگے وہ جم نہ سکے اور تھوڑا سا مقابلہ کر کے پسپا ہو گئے۔ ظہور نے فوراً اپنے بچے کھچے آدمیوں کو دفاعی انتظام کا حکم دیا۔ اس حملے میں ظہور کی آدھی کمپنی شہید ہوگئی۔ تین سو گز تک تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کوئی نہ کوئی جوان شہید ہوا اور سب سے زیادہ شہید دست بدست لڑائی میں ہوئے۔ ظہور میں نہ جانے اللہ تعالیٰ نے کہاں سے اتنا حوصلہ اور طاقت دے دی تھی کہ دفاعی انتظامات ٹھیک ہوگئے تو ظہور نے اپنے چھوٹے وائر لیس سیٹ پر بٹالین کمانڈر کو پیغام بھیجا مشن مکمل ہوگیا ۔پیغام بھیجتے ہی ظہور کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ وہ وائر لیس سیٹ پر جھک گیا تھا ۔ اس کے چہرے پر اب بھی وہ ملکوتی مسکراہٹ تھی ۔ اس کی پوری وردی خون میں تر تھی ۔ اس کے بوٹوں میں خون جم چکا تھا ۔ جان میاں نے اسے سیدھا کیا اس کی وردی کی پیٹی کھولی ‘ فولادی ٹوپی اتاری (باقی صفحہ نمبر53 پر )
(بقیہ: پاک فوج کی سنہری تاریخ کا سنہری باب)
اور خون آلود رومال سے اس کا چہرہ ڈھانپ دیا ۔چاروں طرف عجیب منظر تھا ۔ ہندو سپاہیوں کی بے شمار لاشیں ٹیکری کے ارد گرد پڑی تھیں اور پیچھے کی طرف جس راستے سے ظہور کی کمپنی آئی تھی ایک قطار میں شہیدوں کی لاشیں تھیں ۔ ہر شہید اپنی پوری جنگی وردی میں ملبوس تھا اور بعض شہیدوں کی رائفل کی گرفت اب بھی ایسی تھی جیسے وہ حملہ کرتے وقت اختیار کئے ہوئے تھے ۔ صوبے دار صاحب جو ظہور کی شہادت پر اب کمپنی کمانڈر تھا اس کی لاش کے پاس آیا ۔ جہلم کا یہ بانکا چھبیلا چھ فٹ کا صوبیدار اپنے جیالے کمپنی کمانڈر کی لاش دیکھ کر جذبات پر قابو نہ پا سکا ‘ آنسوئوں سے گلو گیر آواز میں بولا ۔ سر ‘ آپ نے جو کہا تھا سچ کر دکھایا ۔ آپ پوری وردی میں شہید ہوئے ۔ (بشکریہ! اردو ڈائجسٹ) ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں